top of page
Search

012/وحدت امت اور میراث نبوت

Updated: Mar 25, 2021


وحدت امت اور میراث نبوت

ڈاکٹر محمد عامر طاسین



قومی کانفرنس :یکم نومبر 2020


از تحریر: ڈاکٹر محمد عامر طاسین

سابق چیئر مین: پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، حکومت پاکستان

ایگزیکٹیو ڈائیریکٹر: مجلس علمی فاؤنڈیشن، پاکستان


(1)

بات پرانی ہوگئی ہے مگر یہ بتاتا چلوں کہ ایک سال قبل اہل تشیع مکتبہ فکر کے ایک علامہ صاحب کی کسی سماجی موضوع پر ایک یا دو ویڈیو کلپ موصول ہوئیں، جسے اطمینان سے دیکھنے کا موقع ملا۔گفتگو کا انداز سے محسوس ہوا کہ یہ صاحب علم اور معتدل طبیعت کے مالک ہیں۔ بظاہر لہجے میں نہ تو سختی و شدت نظر آئی اور نہ ہی چہرے پر کرختگی کے آثار نمایا تھے۔ اظہار تکلم میں میٹھاس، الفاظ کی ادائیگی صاف اور واضح ، جبکہ انداز دھیما اور سحر انگیز محسوس ہوا ۔

(2)

میرامختلف بڑے الیکٹرونک چینل سے 16 سال تک تعلق رہا، پس پردہ اپنے امور سے متعلق مختلف دینی پروگرام کے توسط سے تمام مکاتب فکر کی بے شمار علمی ودینی شخصیات سے رابطہ و تعلق رہا، اور کم و بیش سب ہی اہل علم کے اپنے اپنے انداز گفتگو ، علمی مہارت و مضبوطی اور مزاج سے بھی آگاہی ہوتی رہی ۔ ہر ایک اپنے خاص اسلوب اور انداز سے مقبول بھی ہوئے۔ خصوصاً مکتبہ اہل تشیع کے ڈاکٹر رئیس جعفری، ڈاکٹر محسن نقوی، علامہ تقی ہادی، علامہ امین شہیدی اور کچھ دیگر اہل علم کے بعد اس ویڈیو میں موجود علامہ صاحب کو دیکھ اور سن کر بہت اچھا لگا۔میرا غالب گمان یہی ہے کہ ایسی علمی اور معتدل مزاج کی شخصیات چاہے کسی بھی مکتبہ فکر میں ہوں انہیں ان کے اپنے مکتبہ فکر کےلوگ زیادہ اہمیت

نہیں دیتے ہیں اور شاید کسی درجہ میں وہ اپنوں کے ہاتھوں معتوب بھی ٹھرائے جاتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایسے علماء واسکالر چیخ چیخ کر مجمع کو گرماتے نہیں بلکہ دھیمے انداز سے مدلل علمی بات کرتے ہیں، مخاطبین میں نفرت و حقارت کے کانٹے بچھانے کے بجائے پیار و محبت کے اسلوب کو پیش نظر رکھ کر بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد خیال پیدا ہوا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ ان صاحب علم سے بھی کبھی براہ راست کوئی ملاقات کا سبب بن جائے تو مزید کچھ سیکھنےاور سمجھنے کا موقع مل سکے۔

(3)

خیر جناب بات آئی گئی ہوگئی اور وقت گزر گیا۔امسال ماہ اکتوبر میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کی جانب سے ایک پروگرام میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا اور کراچی سے اسلام آباد آنا ہوا۔پروگرام میں شرکت ہوئی اور دو دن بعد کونسل کے چیئر مین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے ایک علیحدہ ملاقات کا وقت طے تھا، پاکستان کے دینی مدارس اور عصری مسائل کی بنیادی جہت پر اظہار خیال ہوا اور ڈاکٹر صاحب کی جانب سے ہمیشہ کی طرح احقر کوبہت کچھ سیکھنے کو مل سکا تھا۔ گفتگو کے اختتام سے قبل ڈاکٹر قبلہ صاحب کو بتایا گیا کہ مقررہ وقت کے مطابق جناب مجاہد حسین نامی صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں۔میں نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت چاہی تو مجھے کہا کہ آپ ابھی تشریف رکھیں کچھ مزید باتیں کرنا ہیں ۔مہمانوں کو بلا لیا گیا اور ان کے ساتھ دو احباب بھی کمرے میں داخل ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب کی ان حضرات سے ملاقات اور گفتگو سے اندازہ ہوا کہ یہ حضرات چیئرمین صاحب کو لاہور میں منعقد ہونے والی وحدت امت اور میراث نبوت کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں مدعو کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان حضرات سے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آپ انہیں بھی اس کانفرنس میں مدعو کریں اور مجاہد صاحب نے اسی وقت لبیک کہتے ہوئے مجھے بھی دعوت نامہ پیش کیا۔اب مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ یہ لاہور میں جامعہ عروۃ الوثقی کون سا ادارہ ہے اور اس کے بانی و مبانی کون ہیں؟ البتہ ان حضرات نے تعریفاً توصیفاً بتایا کہ آپ جب اس ادارے میں تشریف لائیں گے، دیکھیں گے تو بہت اچھا لگے گا ۔


(4)

ڈاکٹر قبلہ صاحب سے ملاقات کے بعد دوسرے دن کراچی پہنچا اور اپنے روز کے جھمیلو میں منہمک ہوگیا۔دو دن بعد مجاہد صاحب نے رابطہ کرکےبتایا کہ ہمارے کراچی ذمہ دار جناب حاجی اصغر صاحب آپ سے رابطہ کریں گے اور آپ کو باضابطہ دعوت نامہ دیں گے۔ دوسرے دن مقررہ وقت کے مطابق ملاقات کے لیے ادارہ مجلس علمی فاؤندیشن میں جناب حاجی اصغر صاحب،جناب رضا صاحب، جناب محسن صاحب اور دیگر احباب تشریف لائے،جامعہ عروۃ الوثقی اور ادارے کے بانی علامہ سید جواد نقوی صاحب کے علمی تفکرات اور ادارتی وخدمات کے حوالے سے تفصیلی اظہار خیال کے بعد دعوت نامہ بھی پیش کیا۔ مجھے دوران گفتگو انکشاف ہوا کہ یہ وہی علمی و معتدل شخصیت ہیں، جن کی مجھے کچھ عرصہ قبل ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور ان حضرات کی گفو کے بعد اب علامہ صاحب سےملاقات کا مزید تجسس بڑھ چکا تھا۔ میں اس بات پر ضرور حیران تھا کہ کہاں سے بات اٹھی اور کہاں سے بات چلی اور کس سبب سے اس کانفرنس کا دعوت نامہ موصول ہوا؟

(5)

مقررہ دن یعنی 31 اکتوبر کی رات جناب آغا سید جواد نقوی صاحب کے معاونین اور دیگر مہمان علمائے کرام کے ساتھ کراچی سے لاہور آمد ہوئی۔ دوسرے دن صبح 8 بج کر 45 منٹ پر ہوٹل سے جامعہ عروۃ الثقی پہنچے۔ مرکزی استقبالی جگہ پر طلبہ اور ذمہ داران نے خوب خیر مقدم کیا اور پھر چند حضرات نے پہلے جامعہ کا مختصر تعارفی دورہ کروایا۔ادارے کا رقبہ چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ بے شمار مختلف عمارتیں موجود تھیں، جن میں طلبہ کی تعلیمی درسگاہ،ہاسٹل، اساتذہ کے رہائشی فلیٹس، مطعم، مطبخ، لانڈری، فنی علوم و کورسز، اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین ہسپتال کا قیام جس میں تقریباً تمام ہی امراض کا علاج ماہر ڈاکٹرز سےکیا جاتا ہے اور باقاعدہ آپریشن کی بھی بہترین سہولیات موجود تھی۔ ہر جگہ پہنچ کر بریفنگ دی جا رہی تھی اور مجھے قدم بقدم یہ حیرانگی ہورہی تھی کہ یہ سب ایک شخص کے ذہن کی تخلیقی اختراع ہے۔ اس ادارے کی ایک ایک جگہ جناب آغاصاحب تنظیمی صلاحیت و استعداد اور اہلیت کا منہ بولتا ثبوت نظر آ رہا تھا۔اس موضوع پر لکھوں تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ البتہ مختصر یہ ہے کہ ادارے کے مختصر وزٹ سے اندازہ قائم ہوتا جا رہا تھا کہ جناب علامہ صاحب ایک بہترین منتظم اور غیر معمولی تخلیقی ذہانت کی حامل شخصیت ہیں۔وہ جو سوچتے ہیں کر گزرتے ہیں۔یہ وہ تازہ تازہ جذباتی احساسات تھے، جو ابھی صرف جامعہ دیکھنے سے پیدا ہورہے تھے۔ علامہ صاحب جب بالمشافہ ملاقات ہوگی اور ان کے فکری خیالات سے اپنی سماعت کا حصہ بناؤنگا تب ہی معلوم ہوگا کہ آخر وہ کون سی مقنا طیسی کشش ہے جس کے سبب میں ہر کوئی اُن کی جانب کھچتا چلا آتا ہے۔

(6)

کانفرنس ہال میں پہنچا اور اگلی نشست پر برا جمان ہوگیا۔ کانفرنس کا آغاز صبح 9 بجے ہوا، پہلے حصہ میں محقق اسکالرز مدعو تھے، جنہوں نے"وحدت امت اور میراث نبوت" کے ذیلی عنوان کے تحت اپنے تحقیقی مقالہ جات کا خلاصہ پیش کرنا تھا۔ یہ سلسلہ کوئی 12:30 بجے تک جاری رہا۔ صلاۃ ظہر اور عبادت ظہرانے کے بعد علما، خطبا اور واعظ نے ،اُسی مرکزی عنوان پر اپنے فن خطابت سے فضائل و اہمیت کے علمی جوہر دکھائے۔ کچھ مقررین دھیمے اور کچھ جذباتی دھواں دار خطاب سے مجمع کو گرما تے رہےاور یہ سلسلہ اذان مغرب تک جاری رہا۔وقتاً فوقتاً متواتر درود و سلام اور وحدت کا پیغام بھی خوبصورت منظوم انداز سے جامعہ طلبہ پیش کرتے رہے، جس کے سبب ماحول سحر انگیز ہوجاتا تھا۔ صلاۃ مغرب کے بعدتیسری نشست کا آغاز ہونا تھا اس دوران مجھے گلگت کے دو احباب ملے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا خطاب کس وقت ہوگا؟

میں نے بتایا کہ مجھے معلوم یہ ہوا ہے کہ اس کانفرنس میں200 کے لگ بھگ مقررین ہیں۔ لیکن اب تک مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ میرا نام بھی اظہار خیال پیش کرنے والوں میں شامل ہے اوردوسری بات یہ ہے کہ اتنی اہم علمی شخصیات کو اپنی سماعت کا حصہ بنانے کے بعد اب مجھ ناچیز کی گنجائش کہاں رہتی ہے؟ ویسے بھی اس عنوان پر میرے جو خیالات ہیں اس حوالے سے تقریبا ً سب ہی اہل علم مختلف انداز سے بیان کرچکے ہیں۔لہذا اب خواہش یہی ہے کہ اب میں پروگرام کے اختتام تک بقیہ اہل علم کو سن کر سیکھنے کی کوشش کروں اور یہی مجھے اچھا لگے گا۔

پروگرام کا تیسرا حصہ شروع ہوا، اسٹیج پر دیگر علمائے کرام اور علامہ آغا صاحب کے ساتھ مولانا محمد خان شیرانی صاحب صدارت فرما رہے تھے۔ سلسلہ پھر سے شروع ہوا اور اسٹیج سیکرٹری صاحب کی دعوت پر باری باری مقررین سامعین کو اپنے زریں خطابات سے نواز رہے تھے۔اس کے بعد جناب مولانا محمد خان شیرانی صاحب کی گفتگو شروع ہوئی تو میں پوری توجہ سے ان کی گفتگو کے سحر میں مبتلا اپنی سماعت کو سیراب کرتا رہا۔کہ اچانک جناب حاجی اصغر صاحب میری جانب آئے اور کہا کہ آپ کو آغاصاحب کے حکم کے مطابق اسٹیج پر بلایا جا رہا ہے ۔میں نے انکار کیا کہ مجھے یہاں بیٹھ کر سننے میں اچھا لگ رہا ہے اگر مجھے اوپر بیٹھنے کی رخصت دی جائے تو اچھا لگے گا۔لیکن وہ شاید محترم آغا صاحب کے حکم پر بضد تھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر جگہ سے اٹھایا اور اسٹیج کی جانب لے جانے لگے۔اب میں نہ چاہتے ہوئے اسٹیج پر جیسے پہنچا تو محترم آغا صاحب حسب معمول استقبال کے لیے کھڑے ہوئے اور قریب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔

حیران اس بات پرتھا کہ میں دل میں یہ سوچ کر بیٹھا تھا کہ اچھا ہی ہے کہ کوئی اب مجھے گفتگو کے لیے نہ بلائے اور میں نیچے آرام سے بقیہ حضرات کی گفتگو سنتا رہوں لیکن علامہ آغا صاحب کی دوررس نگاہ کے سبب اسٹیج پرطلبی کو کرامت نہ سمجھو تو کیا سمجھوں؟ جب کہ ابھی بہت سے ایسے مقررین باقی تھے جو اسٹیج پر بیٹھنے کا اعزاز نہ پا سکے۔مجھے اس اعزاز پر اس لیے بھی فخر تھا کہ میں محترم علمی شخصیت علامہ شیرانی صاحب اور علامہ آغا صاحب کے ساتھ صف میں بیٹھا تھا۔

صبح سے رات تک جو سب سے پر مغز گفتگو رہی وہ علامہ شیرانی صاحب کی تھی اور کیا کمال کے علمی نکات بیان کیے۔ تواتر سے علم کے انمول موتی بکھیر رہے تھے اور ہم جیسے طالب علم وہ گوہر نایاب سمیٹنے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے۔ میرا تو خیال تھا کہ مولانا شیرانی صاحب کی نہایت ہی علمی ، دقیق پر مغز خطاب کے بعد مزید کسی بھی مقرر کا خطاب اور اظہار خیال پیش کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں تھی۔ اور نو بجے تک کا وقت بھی مکمل ہوچکا تھا مگر جناب آغاصاحب نے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ جتنے مہمان مقرر باقی رہ گئے ہیں وہ بھی اپنے خیالات پیش فرمائیں لیکن ساتھ ہی گزارش بھی پیش کردی کہ اگربقیہ سب حضرات2 سے 3 منٹ میں اپنا مدعا پیش فرمائیں تو مناسب ہوگا۔ لیکن نہیں جناب ! مولاناشیرانی صاحب کے جانے کے بعد کچھ مقررین نے حسب معمول وقت کا خیال نہ رکھتے ہوئے تکرار کے ساتھ فن خطابت کے جوہر دکھائے ۔ اور پھر اسٹیج سیکرٹری کی جانب سے احقر کے نام کا جب اعلان ہوا۔تو میں نے آغا صاحب کی جانب دیکھا اور انہوں نے مائیک کی جانب جانے کا اشارہ فرمایا۔ اب میں نے تو ٹھان لی تھی کہ کسی نے وقت کی پابندی کی ہو یا نہ کی ہو، میں ضرور دو سے تین منٹ میں بات کر لونگااور ٹھیک دو منٹ تیس سیکنڈ میں ہی اپنی بات مکمل کی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

پہلےتو یہ سوچا تھا کہ اپنی تین صفحات پر مبنی تقریر پڑھنے کا موقع ملے گا تو پڑھ ڈالونگا مگر اب وقت کی نزاکت کا عالم یہ تھا کہ اس اہم عنوان پر اپنے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ و جملوں کو بھی ترتیب سے بیان کرنے کا وقت نہیں تھا۔ لیکن گفتگو کے بعد یہ سوچ لیا تھا کہ اس کانفرنس کا مکمل خلاصہ مضمون کی صورت لانے کی کوشش کرونگا ۔اگر میری ناقص تحریر اشاعت کے قابل ہوئی تو ٹھیک وگرنہ اس ناقص تحریر کایہ حق بھی ان ہی کا ہے، جو ان کے پاس محفوظ رہے گا۔ البتہ دونوں صورتوں میں مجھے اعزاز حاصل رہے گا ۔ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچنے کے قریب تھا ، رات کے 10 بج چکے تھے اور اس بے مثال کانفرنس کے اختتام پر جناب علامہ آغا سید جواد نقوی صاحب نے مہمانوں کے لیے اظہار تشکر فرمایا اور جو مقرر رہ گئے ان سے معذرت خواہانہ عرض گزار پیش فرمائی ۔ ساتھ ہی اس اہم موضوع پرکانفرنس کے انعقاد، تحفظات، خدشات اور تشکرات سے بھی خوب آگاہ فرمایا۔ یعنی جامع اور خوبصورت انداز سے بہترین خلاصہ کلام پیش فرمایا۔ گویا اب آغا صاحب کے انداز گفتگو نے وہی تاثر قائم کیا جوکہ اس قبل ویڈیو کلپ دیکھنے سے قائم ہوا تھا۔ کچھ ادارے فرد ساز ہوتے ہیں اور کچھ شخصیات ادارہ ساز ۔ لیکن بیک وقت دونوں خوبیوں کے جوہر کسی میں موجود ہوں ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہی دونوں خوبیاں جناب آغا صاحب میں بھی مجھے شدت سے محسوس ہوئیں کہ وہ نہ صرف ادارہ ساز ہیں بلکہ افراد سازی میں ان میں خوبیاں بالاتم موجود ہیں۔ اگر یہ کہوں تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ افراد کی تربیت سازی کے ساتھ آغا صاحب میں مردم شناسی کے بھی جوہر موجود ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ جو ان کے ساتھ جڑ جاتا ہے وہ گوہر نایاب ہوجاتا ہے۔ اور اس کی مثال ادارے کو دیکھ اور وہاں موجود افراد کے اخلاق کو دیکھ کو بخوبی اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

(7)

اب میں اپنے منتشر خیالات کو تحریر کی صورت پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ و جملے محفوظ ہو جائیں۔

وحدت امت اور میراث محمدﷺ کے عنوان سےجو کانفرنس انعقاد ہوا، جس میں پورے پاکستان سے تمام ہی مکاتب فکر کے اہل علم اور مجھ جیسے طالب علم میں موجود تھے۔ یقینا اس کانفرنس کے سربراہ جامعہ عروۃ الوثقی کے بانی و مبانی حضرت علامہ سید جواد نقوی اور وہ تمام منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے سیرت النبی ﷺ کے اس اہم عنوان پر خوبصورت بزم سجائی اور ملک بھر کے اہل علم کو یکجا کرکے وحدت کی لڑی میں پرونے کی خدمت سر انجام دی ، جو لائق تحسین اورمبارکباد کے مستحق ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس میں جو بھی شخص موجود ہے اور اس پروگرام کو جہاں جہاں بھی دیکھا اور سنا گیا ۔اس بات کی علامت ہے کہ ہم سب خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ سے عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ عقیدت جہاں ہمارے ایمان کا حصہ ہے وہیں ہماری نجات کا بھی باعث ہے۔ اس اہم موضوع کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ آج اس مملکت پاکستان میں تمام مکاتب فکرکو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کے لیے اسی وحدت کی ضرورت ہے۔ جوکہ خاتم الانبیاء علیہم السلام کی میراث ہے۔

وحدت جوکہ یکجہتی کا نام ہے ۔ محبت کا استعیاراہے، الفت کا پیمانہ ہے۔اخوت کا مظہر ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا علم بردار ہے۔ وحدت ایک ایسا باغیچہ ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہیں۔ ان پھولوں میں رچی بسی طرح طرح کی خوشبو مہک رہی ہے۔ اس باغ میں پتے بھی ہیں ،کانٹے بھی ہیں جو ان کی خوبصورتی کو نکھارتے ہیں اور ان پھولوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ مختلف پھولوں کا انتخاب کرکے گلدستے کی مانند سجانا بھی وحدت ہے ۔ اور گلدستہ وحدت میں ہر پھول اپنی جگہ اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے ، یہ گلدستہ بنانے اور سنوارنے کام وہی سر انجام دے سکتا ہے جو مزاجاً جمالیات کا ذوق رکھتا ہوگا۔ ذوق جمال رکھنے والوں کے لیے یہ علامت سرور واطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ شان امتیاز بھی اللہ رب العزت اور اس کے حبیب محمد ﷺ کی میراث ہے۔ واللہ یحب الجمال، کہ وہ جمالیات کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس میں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان مختلف پھولوں کو گلدستہ وحدت میں یکجا کرنا تعلیم حکمت کہلاتا ہے ۔ یہ حکمت کا یہ راز بھی وراثت نبوت سے جڑے بغیر اور سمجھے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ہے ۔

وحدت کی ضد ہے اکائی،اکائی کا مطلب علیحدہ علیحدہ،علیحدہ کامطلب ہے منتشر ،منتشر کا مطلب ہے بکھرا ہوا ۔اگر منتشر انتشار اور فساد سے ہے ،تو پھر فتنہ ہے ،فتنہ کی روک تھام علماء کی تبلیغ سے نہیں، قانون کی زبان سے ہوتی ہے اور اگر فتنہ نہیں ہے ،صرف اختلاف ہے اور اختلاف میں شدت نہیں اور تشدد نہیں، صرف نفرت ہے تو پھر مکالمہ سے بات سمجھی اور سمجھائی جا سکتی ہے۔لیکن مکالمہ بھی ،جب مقابلہ بن جائے تو پھر مقابلہ کی فضا میں انتشار اور فساد کا امکان غالب رہے گا ۔ اگر اکائیوں کی وحدت کے لیے کوئی شخص اور ادارہ خدمت انجام دینا چاہے، تو اس کے لیے نمود و نمائش کی نہیں ،اخلاص کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ اخلاص میں عاجزی و انکساری ہے اور عاجز و انکسار اپنی محنت پوری کرتا ہے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑتا ہے اور اگر یہ عاجز و انکسار، خود نتیجہ کی تلاش میں سرگرم اور سرگرداں رہے گا۔ تو پھر سمجھ لیجیے گا اس میں تصنع و بناوٹ جو اندر چھپی ہوئی تھی وہ بعد ظاہر ہو کر رہے گی۔بقول شاعر


سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے

اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے


یوں تو وحدت کی تعریف بے شمار جگہوں پر مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن وحدت کا پہلا سبق گھر سے شروع ہوتا ہے ۔ جس گھر میں تربیت کےاسلوب میں سلیقہ مندی، شعار مندی کے اثرات موجود ہو۔ بڑوں سے گفتگو کرنے کے مہذب طور طریقے اورچھوٹوں پر مشفقانہ کا رویہ اور آپس میں رشتوں کی آمیزش موجود ہوں تو وہاں سےخاندانی وحدت کا وجود ظاہر ہوتا ہے ۔مختلف قبائل میں محبت و ہمدردی وحدت موجود ہوگی توخوبصورت مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا، اورمعاشرے میں رہنے اور بسنے والے مختلف مکاتب فکر، جماعتوں اور مذاہب کے درمیان برداشت و ہم آہنگی کا سبق موجود ہوگا تو معاشرے میں وحدت امن و سلامتی کی روشنی پھوٹے گی۔ امن کے لیے عدل کا ہونا ضروری ہے۔ جب قانون کی حکمرانی میں مساوات کی وحدت ہوگی، تو وہاں عدل و انصاف کے فیصلے جنم لیں گےاور جہاں عدل و انصاف کے فیصلوں میں حق وصداقت کی وحدت ہوگی تو وہاں سے گمراہی اور باطل کی موت ہوگی۔

گویا ہم زندگی کے جن جن شعبوں میں وحدت قائم کرنا چاہتے ہیں وہاں ہمیں ان شعبوں میں محنت اور ایمانداری کی وحدت قائم کرنا ہوگا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا کہ جب ہم بلا امتیاز لسان و قومیت، مذہب و ملت ، تقسیم و تفریق کے مخمصےسے نکل صرف یہ سوچنا شروع کردیں کہ ہم سب ایک آدم کی اولاد اور ایک ہی خالق کی پیدا کرہ ہیں اور ایک دوسرے کے کام آنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہی سوچ اخوت کی وحدت کو اجاگر کرتی ہے ۔ اسی طرح معاشرے میں سماجی وحدت ہو ، سیاسی وحدت ، ہو مذہبی وحدت ہو ،ہر ایک وحدت سے خوبصورت معاشرہ تخلیق پاتا ہے۔

یعنی یہ واضح ہو گیا ہے کہ ان ہی وحدتوں کی یکجائیت سے ہمیں ایک امت واحدہ تصور ملتا ہے ۔ اب ذہن میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ تصور ہمیں کس نے دیا ہے ؟ مختصر سا جواب یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر ہارٹ ڈسک میں ایک اپلیکیشن موجود ہے۔اس اپلیکیشن کا نام ہے دین فطرت۔ اور یہ دین فطرت پر مبنی پروگرام خالق کائنات نے اپنے مبعوث کردہ تمام انبیاء و رسل علیہ صلاۃ السلام کےساتھ خاتم الانبیاء کا بھی پروگرام جوڑ دیا ہے۔وہ خاتم الانبیاء جوکہ دین فطرت یعنی دین وحدت پر مشتمل پروگرام کا آخری اور مکمل حصہ ہے اور ہم اس آخری حصہ کی وراثت کے امین ہیں۔

وحدت امت کی ضرورت کیوں ہے وحدت اُمت کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ تفرقہ و اختلاف خدا کے عذاب کا سبب بنتا ہے، وحدت اُمت کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ اختلافات سے باطل اوراستعماری طاقتیں مسلمانوں کی تقدیر پر حاکم بننے کی کوشش کرتی ہیں اور ان سے نجات کا راستہ صرف اور صرف وحدت اسلامی میں ہی مضمر ہے۔ وحدت اُمّت کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ اختلافات اور نفرتوں کے سبب بے شمار قومیں برباد ہوگئی ہیں ۔

بہت سی اقوام کو تو رہنے دیجئے، ہم صرف اپنی 70 سال پر مبنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مباحثے، مناظرے، اورمکالمہ کی فضا میں جگہ جگہ نفرت کے بیج بوئے ہوئےملیں گے۔ مکالمہ زندہ معاشروں کی پہچان ہوتی ہے۔ مگر جس مکالمہ میں ایک دوسرے کےلیے پہلے سے نفرت و حقارت موجود ہو تو پھر یہ مکالمہ نہیں بلکہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے ۔ جس کا ہم سب نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔ مگر اب وقت گزر گیا ہے ہمیں اپنی تلخ تاریخ کو کھرچنےکے بجائے ،وحدت کے سفر کی جانب آگے بڑھنا ہے ۔ 2017 میں ریاست کا اہم بیانیہ پیغام پاکستان کی صورت میں آیا اور جس پر پاکستان بھر کےتمام مکاتب فکر نے خوش دلی سے اس بیانیہ کو قبول کیا۔آج بھی ضرورت اس امر ہے کہ


ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے؟


آج ہم سب جس عظیم ہستی کی میراث وحدت پر اظہار خیال کے لیے یکجا ہوئے ہیں ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ آپ علیہ صلاۃ السلام کی وحدت کی میراث میں نفرت نہیں محبت ہے ، بغض و حسد نہیں، حوصلہ افزائی اور تعریف ہے۔ تکبر نہیں عاجزی ہے۔ فتنہ ،فسادنہیں امن وسلامتی ہے ۔ جہالت نہیں علم ہے شعور ہے ۔رعونت نہیں انکساری ہے۔ حوس و لالچ نہیں ، قناعت و اعتدال ہے۔ ظلم نہیں رحم ہے۔ برداشت ہے، رواداری ہے، صبر ہے ۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم خاتم الانبیاء محمد مصطفی علیہم السلام کی اس وحدت کی اس میراث کو کھو چکے ہیں ؟ جسے ہمارا فخر ہونا چاہیے تھا۔ یہ فخر ہم سے کیوں غائب ہو چکا ہے ؟ شاید اس لیے کہ قرآن جیسی عظیم کتاب کومحض برکت کے لیے اوطاقوں کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ ہم صرف تسلیم کرتے ہیں عمل نہیں کرتے ہیں؟ عمل اور کردار میں ہم مضبوط ہوتے تو آج یہ حال ہوتا ؟ ہم نے وحدت کا سبق ضرورپڑھ رکھا ہوگا۔ مگر بھول جاتے ہیں کہ وحدت کسے کہتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے آپ کو نبی علیہ السلام کے علم کے وراث سمجھتے ہیں۔ لیکن ہماری ہی صفو ںمیں ہمارے ہی جیسے علمائے سوء موجود ہیں جن کا حلیہ بھی ویسا ہی ہے جو عمامے بھی وہی رکھتے ہیں، جن کی عبا و قبا بھی وہی ہے ، ہاتھو جھولتی تسبیاں اور سروں پر دستار بھی وہی ہے ۔ اگر صرف ایسا ہی ہے تو پھر یاد رکھیں کہ ہمیں اس اصل معیار کو تلاش کرنا ہوگا کہ

دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم

ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا۔


آج کی یہ عظیم مجلس ، عظیم المرتبت ہستی کی سیرت کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے رکھی گئی ہے ۔ تو کیوں نا آج ہم سب پھر سےیہ عہد کرلیں کہ رہبر رحمت للعالمینﷺ کی سیرت مبارکہ کے صرف ایک پہلو" وحدت امت" کو ہی اپنا لیں، توہم دنیا میں بڑی سے بڑی سازشی طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ وحدت ہے، جو مسلمانوں کو حقیقی حیات دے کر ظلمت کدوں سے نکال کر نور اور روشنی کی جانب گامزن کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ مجھ سمیت ہم سب کو وحدت کے حقیقی تصور کو سمجھنے اور اس پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔

٭٭٭٭٭٭

 
 
 

Comments


bottom of page