عوامی مفاد کےفیصلے رات میں کیوں نہیں ہوتے ؟ /014
- Dr Aamir Tuaseen
- Dec 11, 2022
- 5 min read
تحریر: ڈاکٹرعامر طاسین

ہمارے معاشرے کے مروجہ نظام عدل پر فائز کسی بھی جج صاحب " چاہے ابتدائی عدالت ،عالیہ و عظمی کے فاضل جج ہوں "کے سامنے اگر سوال پیش کرنے کی اجازت ہو تو امید واثق ہے کہ وہ عادل اپنے عدل کے مقام و منصب کی اہمیت ، ضرورت ، فضائل و مناقب کے بارے میں خوب جانتے ہونگے اور یقینا انہیں اپنے مقام و منصب کی اہمیت کے بارے میں معلوم ہونا بھی چاہیئے۔ یہ بات تو ہوگئی فاضل جج صاحبان کے مقام و منصب کی اہمیت و فضلیت کی جو وہ اچھی طرح جانتے ہونگے۔ لہذا ان تمام فاضل ججز صاحبان سے اس بارے میں کسی قسم کی بد گمانی کرنا بالکل درست نہ ہوگا ۔ ویسے بھی مبینہ طور پر غالباً ہمارے معزز فاضل ججز صاحبان کی شان میں منفی رویہ رکھنا قانوناً ان کی شان میں گستاخی کا پہلو اور باعث جرم ہے اورفیصلوں پر توہین عدالت کا تصور بھی ہے۔
خیر اب اگر یہ جائزہ لیں کہ موجودہ نظام عدالت کہ کس قدر اطمینان بخش ہے؟ تو اس حوالے سے کچھ خاص حلقوں اور خاص لوگوں کی جانب سے تعریف بھی ہے اور تنقیدوتحقیر کے نشتر بھی چبتے چباتے نظر آتے ہیں ۔ جن کے حق میں اچھا فیصلہ آجاتا ہے وہ تو تعریفات کے انبار لگا دیتے ہیں اور جن کا فیصلہ غلط آجائے یا طویل عرصہ تک تختہ مشق بن جائے تو وہ منہ بسور کر فوری طور پر دوسری جانب دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ گزشتہ عرصہ ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا ، اسلام آباد وکلاء بار کونسل کی تقریب تھی جس میں اسلام آباد ایسوسی ایشن بار کونسل کے سیکریٹری جناب آصف علی تمبولی نے فاضل معزز جج جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کو ایک سوال بھیجا کہ کیا آپ اس نظام عدالت اور اس نظام انصاف سے مطمئن ہیں؟ تو انہوں نے خودجواب دینے کے بجائے یہی سوال حاضرین کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ جو اس نظام پر اعتماد رکھتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کر دیں ۔ جس پر ھال میں موجود کسی ایک صاحب نے بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ یہ ایک تفریحی کلپ نہیں جوکہ کسی کی محض تحقیر کا سبب بن جائے ہے بلکہ یہ مجموعی نظام عدل کے گال پر پانچ انگلیوں کا زور دار طمانچہ ہے جس کے نشان چہرے پر اب تک واضح ہیں۔
یہاں تک یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ہمارا عادل اور نظام عدالت دونوں میں فرق ہے۔ پہلی جانب عادل کتنا سچا ، کھرا کیوں نہ ہو ،اسے اپنے مقام و منصب کے فضائل و مناقب کیوں نہ معلوم ہوں یہ سب اپنی جگہ مسلم ہے مگر معاشرے کے اس مروجہ نظام عدالت کو کیا کریں کہ جو عادل فیصلہ کرنا تو چاہتا بھی ہے تو کسی نہ کسی سبب دے نہیں پاتا اور نظام رکاوٹ بن جاتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے نظام عدالت میں خصوصاً پیش کار صاحب کے سبب تاریخوں پر تاریخیں اتنی پڑ جاتی ہیں کہ سائل خود تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور فیصلہ ہو نہیں پاتا۔ تیسری جانب اس نظام کی کمزوری کو استحکام بخشنے والے بعض پیشہ ور وکلاء حضرات بھی جان بوجھ کر کیس کو طول دینے کے لیے اپنی اہمیت اور اپنے تقاضے بڑھاتے رہتے ہیں ۔ چوتھی جانب نظام عدالت کے آس پاس جھوٹے گواہان اور ثبوتوں کو پیش کرنے کا بھی اہم کردار نظرآتا ہے اور سچوں کی گواہی کو سچ ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ترین کام ہے جتنا ایک آدمی کا چاند پر پہنچنا ۔پانچویں جانب ملزم کو مجرم اور مجرم کو ملزم ثابت کرنے کی انتظامی اداروں کے پاس یہ مہارت اعلیٰ درجہ کی ہے۔ چھٹی جانب مبینہ طور پر ایسے کچھ فاضل عادل صاحبان بھی موجود ہیں جو کیسز میں غور و فکر، تدبر فہم و فراست، فیصلوں میں دور اندیشی کے بجائے قانون کی کتاب کے صفحات میں موجود دلیل و حوالوں کے پابند ہوتے ہیں ۔ جو وکیل جتنا زیادہ صفحات میں دلیل و حوالے پیش کرکے قاضی وقت کو خوش کردیتا ہے اس کا کام اتنی جلدی ممکن ہوجاتا ہے۔
دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل امریکہ ورلڈ جسٹس اعداد و شمار جمع کرنے کے مطابق حالیہ اپنی جو تفصیلات جاری کی ہیں۔اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ ان میں قانون کی بالا دستی یا قانون پر عمل در آمد ایک انتہائی اہم اشاریاتی تناسب ہے کے مطابق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے 61 ویں، سری لنکا 66 ویں اور بھارت 69 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کی فہرست میں ایک سو بیسویں نمبر پر ہے۔
یہاں صرف ایک مثال دیکھ لیجیے کہ ایک صاحب مظہر فاروق جن کی عمر 42 سال ہے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام 20 سال اپنے شہر قصور میں گزرے مگر 22 سال جیل کی کال کوٹھری میں بیت گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ میں ان کی اپیل کی شنوائی کے لیے انھیں 11 سال انتظار کرنا پڑا۔ جب بات نہ بنی تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی 'انصاف کی باری آتے آتے مزید 10 سال تنگ و تاریک کال کوٹھری میں گزر گئے۔ بالآخر پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قتل کے اس مقدمے سے باعزت بری کیا تھا جس میں انھیں 18 سال پہلے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ایسی بے شمار نظیریں موجود ہیں جن کے تحفظ کی دلیلیں انگریزی میں لکھی کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتاب قانون میں موجود نہیں یا پھر صرف نظر ہیں۔ میرے ایک ماہر وکیل دوست بتاتے ہیں کہ پاکستان میں انصاف مہیا کرنے کے عمل میں انتہاء درجہ کا جھول یہ موجود ہے کہ نظام میں نقص یا غلطی کی وجہ سے کسی شخص کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کا بھی قانون موجود نہیں ۔
ایسا ہر گز نہیں کہ ہمارے نظام عدالت میں قابل اور باصلاحیت جج صاحبان موجود نہیں ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر کوئی کسی بھی فیصلوں میں آزاد انصاف و عدل کے پیمانوں کے بجائے کسی بھی قسم جبری دباؤیا ذاتی مفاد، کمزور دلیلوں اور غیر ضروری حوالوں کی بنیاد پر ہی فیصلے کرنے کا مزاج رکھتے ہوں تو پھر اہلیت قابلیت اور صلاحیت سب ایک طرف ہوجاتی ہی اور پھر بین الاقوامی سطح پر ایسے ہی اعداد شمار ہی دیکھنے کو ملیں گے۔
یقینا اس کمزور نظام کی ڈوریں وزارت قانون سے لے کر قابل وفاضل اراکین پارلیمان سے جڑی ہوئی ہیں جن پر تنقید کرنا تو آسان لگتا ہے مگر اصلاح کرنا مشکل ترین کام لگتا ہے۔ نظام عدالت کی کمزور گرہیں کھولنے کی کوشش کی جائے گی تو کہا جاتا ہےکہ سب الجھ جائیں گے ۔ سچ تو یہ ہے کہ درد دل کے ساتھ تنقید کرنے کے بجائے اس سنجیدہ معاملے کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے۔ جس کی اصلاح ان تمام سیاسی و جمہوری کرداروں اور اداروں پر واجب ہے اور انہیں اپنے مقام و منصب اور ذمہ داری کی لاج رکھتے ہوئے قومی مفاد کی خاطر اصلاحات کے اس کا م کو آگے بڑھانا چاہیئے اور اس سارے عمل میں نیک نیتی، فکر مندی اور توجہ ضروری ہے۔ لہذااس اہم اور بنیادی معاملے پر ہمارے ارباب اختیار اور اراکین پارلیمان کو مل جل قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر اپنی اہلیت و قابلیت کو جوہر دکھانے ہونگے کہ نظام عدالت میں خصوصی طور پر سستا اور فوری انصاف میں رکاوٹ کہاں کہاں واقع ہے؟ اگرججز کی تعداد بڑھا کر دو شفٹوں میں عوام کے چھوٹے اور ضروری عائلی و خانگی ، لین دین، خرید و فروخت، کرایہ داری ، اجرت مزدوری، ملازمت سے بے دخل کرنے، حق وراثت سے محروم و دیگر بے شمار ضروری مسائل کے فوری حل نکالے جاسکتے ہیں تو اس پر بھی خصوصی توجہ ہونی چاہیے ۔ بس آخر میں یہ ایک سوال کہ زبان خلق نقارہ خدا کے تناظر میں جب ہماری نظام عدالت قومی مفاد میں آدھی رات کو عدالت لگا سکتی ہے تو مستقل بنیادوں پرعوامی مفاد میں رات کو بھی عدالت لگانے کا کوئی نظام وضع کرکے انصاف فراہم کر نے کا کوئی کلیہ قائدہ کیوں نہیں بنا سکتی ہے ؟
Comments