top of page
Search

کیا اہل مدارس روشن خیالی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ / 015

Updated: Dec 25, 2022


ڈاکٹرمحمد عامر طاسین

سو شل میڈیا جوکہ ایک آزاد میڈیا ہے، یہاں پر کوئی کسی کو اپنے اپنے تجزیات پیش کرنے اورقیاس آرائیاں کرنے پر کون روک سکتا ہے؟ اندازہ یہی ہے کہ یہ ایک ایسی بحث کا سلسلہ ہے جو بہت جلد وقت آنے پر خود ہی تھم جائے گا۔ بظاہر یوں لگا کہ یہ تو نفرت، ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب بحث در بحث کی فضول جنگ ہے اور ان اعتراضات میں مکالمہ نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ جو تعریف و توصیف بیان کر رہا ہے وہ خوش نظرآ رہا ہے اور جو تنقید واعتراضات پیش کر رہے ہیں اسے بھی سکون واطمینان حاصل ہے۔


زمینی حقائق کے مطابق دینی مدارس کی گزشتہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوجائےگا کہ ہر دور میں ہی اہل مدارس میں سے چند لوگ اٹھتے رہے اوردرد دل کے ساتھ حالات و زمانہ کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے مروجہ نصاب میں سے کچھ اسباق کوعصری ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے یا شامل کرنے کے لیے غور و فکر کرتے رہےہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ یقینا اس عمل میں کوئی عیب والی بات نہیں ہے۔ دینی فہم اوردرد دل رکھنے والے اہل دانش سے ایسے ہی مثبت عمل کی امید اور توقع رکھنی چاہیئے۔ ویسے بھی وقت سے بڑا منصف اور کون ہوسکتا ہے جو ماضی کے لاکھ اختلافات کے باوجود نظریہ ضرورت یا پھر حالات کا جبر کے تحت بہت کچھ بدل کے رکھ دیتا ہے۔



اہل مدارس کے فہم کے اعتبار سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہمارے یہاں دو طبقات موجود ہیں، جن میں ویسے تو مجموعی طور پر ہم آہنگی موجود ہے، لیکن چند امور میں ایک طبقہ مخصوص روایتی دینی علم کو جوں کا توں وراثت دین کا ہی حصہ سمجھتا ہے اور اس میں کسی قسم کی بہتری یا تبدیلی کو خلاف مزاج سمجھتا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ جوکہ مختصر ضرور ہے مگروہ روایتی علوم دینیہ کے ساتھ جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کو ترجیح اور ترغیب دیتا نظر آتاہے۔ میری دانست کے مطابق دونوں میں مقابلہ کے بجائے مکالمہ کی صورت ہونی چاہیئے تھی کیونکہ دونوں ہی اپنے اخلاص کے ساتھ اپنی اپنی جگہ خدمات انجام دینے میں باعث فخر وثواب سمجھتے ہیں۔


ایک سال قبل جس طرح حکومت نے 5 وفاقات کے بعد مزید 10 نئے بورڈ وفاقات کی منظوری عطا کی، تواب تمام وفاقات کو اس مسئلہ پر نہایت سنجیدگی غوروفکر کرنا چاہیئے کہ ہم اپنے اپنے نصاب کو عصری ضرورتوں کے مطابق کسی طرح بہتر سے بہتر بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ تجویز کے طور پر یہ کام وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ماتحت ادارہ ڈائیریکٹوریٹ آف ریلیجس ایجوکیشن آسانی سے کرسکتا ہے کہ وہ حکومتی سطح پر 15 بورڈز (وفاقات) کے بڑےعلمائے کرام، پالیسی میکر اورماہرین تعلیم حضرات پر مشتمل بعنوان "دینی مدارس کے نصاب میں مشترکات ،عصری ضرورتوں کے مسائل اور حل اور اہداف" کے عنوان پر قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ جس کے ممکنہ طور پر بہترین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔


یوں تو پاکستان کے دینی مدارس کے تعلیمی نظام کے حوالے سے اب تک بے شمار تعریفی، توصیفی ، تنقیدی،الزامی، دفاعی مضامین، مقالہ جات، کالمز، بلاگ، کئی کتب اورمقالہ جات بھی تحریر کیے جاچکے ہیں ۔ اگر تقسیم ہند سے قبل خطہ ہندوستان کو دیکھا جائے تو وہاں کے بھی علمائے کرام اورمحققین نے اس عنوان سے کتب لکھی گئی ہیں۔ ان میں سید مناظر احسن گیلانیؒ کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب " ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت" سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ جس میں انہوں نے نہ صرف دینی مدارس کوترغیب دی ہے کہ مسلمانوں کوعصری علوم کی جانب بھی بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اہل مدارس کو مختلف علوم وفنون بھی سیکھنے سمجھنے چاہیئے۔


پاکستان میں چند دہائی قبل تک اہل مدرسہ کے نزدیک اسکول کالج اور یونیورسٹی قائم کرنا تو دور کی بات بلکہ کچھ نامور اہل علم حضرات بنات کے مدارس قائم کرنے اور اسکول کی عصری تعلیم کے بھی شدید خلاف رہ چکے ہیں۔ علوم دینیہ کے نصاب میں عصری علوم پڑھانے کی نہ صرف مخالف کرتے بلکہ اپنے طلباء کو کالج، یونیورسٹی میں داخلے پر بھی شدید معترض رہ چکے ہیں۔ لیکن مخالفت کے باجود وقت نے بہت کچھ بدل کررکھ دیا تھا۔ پھررفتہ رفتہ کچھ اہل مدارس نے بنات کے مدارس بھی قائم کیے۔ علوم دینیہ کے ساتھ عصری علوم بھی نصاب کا حصہ بن گیا۔ دینی مدارس کے ساتھ باقاعدہ اسکول و کالج بھی تیار ہوگئے، یونیورسٹیوں میں بی اے، ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے کی باقاعدہ ترغیب بھی دی جانے لگی ہے۔ ایک قدم اور آگے بڑھ کر انہی دینی مدارس کے فاضلین نے جہاں منفعت بخش فیس وصول کرنے والے جدید طرز کے اسکول قائم کرلیے وہاں ان میں سے کچھ فاضلین اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ بننے کی دوڑ میں بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اب اگر کسی دینی مدرسہ نے یونیورسٹی کا باقاعدہ چارٹرڈ حاصل کرلیا ہے تو یہ خوش آئند عمل ہے، اس پر اب کسی اہل معترض کے اعتراض و اشکالات کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا ہے۔


میرا تو خیال ہے کہ جامعۃ الرشید کے سرپرست اعلیٰ مفتی عبد الرحیم صاحب نے وقت کے مسائل کو سمجھتے ہوئے فراست اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ الغزالی یونیورسٹی کی اس کامیاب کوشش سے قبل بھی مفتی عبد الرحیم صاحب کی سوچ و فکر کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے دیگر دینی مدارس و جامعات کے مقابلے میں جامعۃ الرشید کو منفرد مقام دینے کی جو کوشش کی ہے وہ ریکارڈ کا باقاعدہ حصہ ہے۔ جسے سالانہ کانووکیشن کی رپورٹ پر پڑھا اور ویڈیوز پر دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اسی درس نظامی کے ساتھ کم وبیش دودہائی قبل سے متفرق شعبہ جات انتظامی، تدریسی، صحافتی، فلکیاتی ، تحقیق و مراجعاتی وغیرہ کے لیے با صلاحیت رجال کار کی تیاری کے لیے روایتی علوم کے ساتھ عصری تقاضوں اور چیلنجز کے حل کے لیے علوم جدیدہ کو روشناس کرانے کا عمدہ سفر کا آغاز کردیا تھا۔ درس نظامی کے 16 سالہ نصاب کے علاوہ جدیدمعاشی مسائل، بنکنگ، در آمد و برآمد، کمپنی شیئرز، انشورنس، صحافت، فلکیات ، موسمیات، تدریس کے جدید اسلوب جیسے بے شمار عنوانات پر مشتمل مختصر کورسزکا سلسلہ نہ صرف اپنے مدارس کے طلباء کے لیے بلکہ کالج یونیورسٹی کے گریجویٹ اور ماسٹرز طلباء کے لیے علوم دینیہ کے شارٹ کورسز کا اجراء کیا۔ اساتذہ کی تدریسی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے تربیتی پروگرامز کا بہترین فارمیٹ تیار کیا گیا۔ طلبہ کے داخلوں کے لیے منفرد لائحہ عمل کا معیار قائم کیا گیا۔ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے لیے باقاعدہ چینل کو بھی متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہی وہ تسلسل ہےجس کے باعث اس دینی ادارے کے سر پرست اور ٹیم لیڈر مفتی عبد الرحیم صاحب کی خواہش و جستجو، محنت و کوشش رنگ لے آئی اور آجاس دینی ادارہکے ساتھایک یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں آگیاہے جو ایک تاریخ رقم کرچکا ہے۔ الغزالی یونیورسٹی کاتعلیمی منصوبہ دیگر یونیورسٹیز کے مقابلے میں کہاں تک انفرادی و شناخت پیدا کرے گا اور اس کے نتائج پر دینی مدارس پر کیا اثرات مرتب ہونگے یہ بھی وقت بتادے گا۔


مگریہ بات طے شدہ ہے آج جامعۃ الرشید نےدینی مدارس کے علمائے کرام اور فاضلین کو اعلیٰ یونیورسٹیوں اورماہرین علوم و فنون کی دوڑ میں شامل کرادیا ہے۔ یقیناً یہ قدم نہ صرف لائق تحسین و ستائش ہے بلکہ میرے گمان کے مطابق آنے والے وقت میں دوسرے دینی اداروں کے لیے بھی یہ عمل باعث تقلید ثابت ہوگا۔ ایسے میں کچھ فہیم ودانا لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال ضرور ابھرے گا کہ کیا اہل مدارس روشن خیالی کی جانب بڑھ رہے ہیں ؟ تومیرا خیال ہے اس کا جواب جامعۃ الرشید کے جملہ بورڈ اراکین اور سر پرست ٹیم لیڈر کو ضرور تیار کرلینا چاہیئے۔

 
 
 

Opmerkingen


bottom of page